پاکستان امریکہ تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے؟ سہیل وڑائچ کا آج کا کالم
پاکستان امریکی کیمپ میں دہائیوں تک "کرائے کے سپاہی" کے طور پر رہا، لیکن اب خود مختاری کے آثار دکھا رہا ہے۔
جنگ اخبار میں آج کا کالم سہیل وڑائچ کے مخصوص تجزیاتی اور متوازن انداز کی عمدہ مثال ہے. کالم میں پاکستان کی داخلی سیاست اور بین الاقوامی معاملات کو نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
سہیل وڑائچ کے کالم کا خلاصہ
1. پاکستان کی بین الاقوامی پوزیشن:
پاکستان امریکی کیمپ میں دہائیوں تک "کرائے کے سپاہی” کے طور پر رہا، لیکن اب خود مختاری کے آثار دکھا رہا ہے۔ بلاول بھٹو کا بیان "عمران ایک بہانہ، ایٹمی پروگرام اصل نشانہ” اس نئی سمت کا مظہر ہے۔
2. بلاول بھٹو کی قیادت:
بطور وزیر خارجہ، بلاول نے کئی اہم ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے۔ ان کا حالیہ امریکی مخالف بیان ایک ریاستی پالیسی کا اشارہ ہو سکتا ہے، جو پاکستان کے مستقبل کے خارجہ تعلقات میں اہم کردار ادا کرے گا۔
3. سیاسی تنازعات:
خواجہ سعد رفیق کی تقریب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات اور ان کے مقاصد پر گفتگو ہوئی۔ خواجہ آصف نے تحریک انصاف کی نیت پر شک کا اظہار کیا اور ن لیگ کی محتاط پوزیشن واضح کی۔
4. داخلی چیلنجز:
ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین عدم اعتماد اور تنازعات اندرونی مصالحت کے عمل کو مشکل بنا رہے ہیں، جس کے بغیر کوئی بڑا سیاسی نتیجہ ممکن نہیں۔
5. ریاست کی پوزیشن:
موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم شہباز شریف کو سراہ رہی ہے، لیکن عمران خان کو فی الحال کسی بڑی رعایت کی امید نہیں۔
6. ممکنہ خطرات:
بلاول کا بیانیہ اگرچہ عوامی حمایت حاصل کر سکتا ہے، لیکن سپر پاورز سے تصادم کے باعث یہ مہنگا پڑ سکتا ہے. خاص طور پر کمزور معیشت اور اندرونی سیاسی و علاقائی مسائل کی موجودگی میں پاکستان امریکہ کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔
حاصل کلام
سہیل وڑائچ نے نہایت عمدہ انداز میں پاکستان کے بدلتے بیانیے اور اندرونی و بیرونی مسائل کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کو داخلی مفاہمت اور خارجی تنازعات کے بیچ ایک توازن قائم کرنا ہوگا تاکہ موجودہ چیلنجز کا سامنا کیا جا سکے۔