عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں نرمی، انصار عباسی کا کالم
ڈی جی آئی ایس پی آر نے خاص طور پر صدق دل سے معافی مانگنے کی شرط کو نظرانداز کیا ہے۔
جنگ اخبار میں انصار عباسی کا آج کا کالم سیاسی تجزیے پر مبنی ہے جس میں انہوں نے 9 مئی کے واقعات، تحریک انصاف کی سیاست، اور فوج کے رویے پر تبصرہ کیا ہے۔
انصار عباسی نے اپنی تحریر میں خاص طور پر یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ فوج کے ترجمان کے حالیہ بیانات میں ماضی کے مقابلے میں تحریک انصاف کے لیے کچھ نرمی کا عندیہ ملتا ہے.ڈی جی آئی ایس پی آر نے خاص طور پر صدق دل سے معافی مانگنے کی شرط کو نظرانداز کیا ہے۔
انصار عباسی کے کالم کے اہم نکات:
1. فوج کا سخت مؤقف:
فوج نے اپنی پریس کانفرنس میں 9 مئی کے ماسٹر مائنڈز کو سزا دینے اور انتشار کی سیاست کے خلاف اپنے سخت مؤقف کو دہرایا ہے۔
2. شرط میں نرمی:
ماضی میں معافی مانگنے کی شرط پر زور دیا گیا تھا، لیکن حالیہ بیانات میں اس شرط کا ذکر نہیں کیا گیا، جو ممکنہ طور پر تحریک انصاف کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کا اشارہ ہوسکتا ہے۔
3. منفی سیاست کے نقصانات:
انصار عباسی نے زور دیا کہ انتشار اور سول نافرمانی کی سیاست سے نہ صرف ملک کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ خود تحریک انصاف کو بھی سیاسی اور معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
4. مثبت تجاویز:
کالم نگار انصار عباسی نے عمران خان کو تجویز دی کہ وہ قومی مفادات کے لیے کچھ کام کریں، مثلاً:
– پاکستان کے میزائل پروگرام کے خلاف امریکی دباؤ کی مذمت کریں۔
– دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کریں۔
– بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کریں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ترسیلات زر بھیجیں۔
5. قومی رہنمائی کا مشورہ:
انصار عباسی کے مطابق، عمران خان اپنی سیاست کو مثبت سمت میں لے جا کر ہی خود کو ایک قومی رہنما ثابت کر سکتے ہیں۔
کالم پر تجزیہ:
انصار عباسی کے مطابق، سیاسی استحکام کے لیے مذاکرات کا عمل خوش آئند ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی سیاست کو مفاہمت اور تعمیری رویے کی طرف لے جائیں۔ انصار عباسی کا کہنا ہے کہ قومی مفادات کو ترجیح دے کر ہی عمران خان پاکستان میں اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
یہ کالم سیاسی حرکیات اور موجودہ حالات پر ایک اہم تجزیہ فراہم کرتا ہے، جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔