اندھیروں کی جیت – حامد میر کا کالم
26نومبر کے واقعات کے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے میری رائے مختلف ہے۔
کوئی سیکھنا چاہے تو 26 نومبر کو اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعات سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ 26 نومبر کو ہم نے دن کی روشنی میں عوامی ہجوم کے سامنے ریاست کی طاقت اور تمکنت کو ناصرف بے بس ہوتے بلکہ فرار ہوتے بھی دیکھا۔
پھر 26 نومبر کو رات گئے اسلام آباد کے ریڈ زون میں سب روشنیاں بجھا دی گئیں۔ بلیو ایریا کی سب عمارتوں کی بجلی بھی بند کر دی گئی، جب ہر طرف اندھیرا چھا گیا تو اس اندھیرے میں ریاست نے اپنی طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا اور اس تمکنت کو بحال کیا جسے دن کی روشنی میں چھین لیا گیا تھا۔
26نومبر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں دو سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ وفاقی حکومت اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں.
لہٰذا اس دن کے واقعات سے صرف ایک فریق کو نہیں بلکہ دونوں فریقین کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزراء نے رات کے اندھیرے میں کریک ڈائون کے ذریعے تحریک انصاف والوں کو اسلام آباد سے بھگا کر اگلے دن اپنی فتح کا اعلان کیا اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو بھگوڑا قرار دیا۔
تحریک انصاف کے قائدین نے کہا کہ ان کے کارکنوں پر براہ راست فائرنگ ہو رہی تھی لہٰذا انہوں نے اپنے کارکنوں کی زندگیاں بچانے کیلئے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔ 26نومبر کے واقعات کے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے میری رائے مختلف ہے۔
اس دن نہ تو وفاق نے صوبے پر فتح پائی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کے کارکن پارٹی قیادت کے کہنے پر اسلام آباد سے واپس گئے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ بطور ریاست اور بطور قوم یہ ہم سب کی شکست کا دن تھا۔
دن کی روشنی میں تمام ریاستی اداروں کی طاقت کو شکست ہوئی اور رات کے اندھیرے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش و جذبہ شکست کھا گیا کیونکہ پارٹی کی قیادت موقع سے فرار ہو گئی۔ تحریک انصاف کی نئی سیاسی رہنما بشریٰ بی بی نے بار بار کہا تھا کہ وہ ہر صورت ڈی چوک پہنچیں گی اور اس وقت تک واپس نہیں جائیں گی جب تک عمران خان رہا نہیں ہوتے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا تھا کہ ہم نے گھر والوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم عمران خان کے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے اور گھر والوں سے کہہ دیا ہے کہ واپس نہ آئیں تو ہمارے جنازے پڑھ لینا۔
یہ تو ماننا پڑے گا کہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کا قافلہ تمام رکاوٹیں توڑتا ہوا اسلام آباد کے ریڈ زون کے قریب پہنچ گیا۔ جن وفاقی وزراء نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف والوں کو کسی صورت میں اسلام آباد نہیں آنے دیں گے وہ سب 26 نومبر کی دوپہر کو حیران رہ گئے جب تحریک انصاف والے ڈی چوک میں پہنچ گئے اور وہاں کنٹینرز پر چڑھ کر اپنے جھنڈے لہرا رہے تھے۔
جب میں نے دیکھا کہ کنٹینرز پر موجود رینجرز کے جوان تحریک انصاف والوں سے ہاتھ ملا کر پیچھے کی طرف جا رہے ہیں تو معلوم کیا کہ تحریک انصاف کی قیادت ریڈ زون کی طرف آ رہی ہے یا نہیں؟ پتہ چلا کہ تحریک انصاف کے کچھ رہنما ڈی چوک جانے کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مذاکرات کے ذریعے عمران خان کو رہا کرانا آسان ہو گیا ہے۔
کافی دیر تک تحریک انصاف کا کوئی رہنما ڈی چوک نہیں آیا بلکہ یہ صاحبان چائنہ چوک آ کر رک جاتے تھے۔ کارکن اپنے رہنماؤں سے لڑتے رہے کہ آگے بڑھو رہنماؤں کا خیال تھا کہ اگر سیکورٹی فورسز نے فائرنگ شروع کر دی تو لاشیں گریں گی۔ اس دوران واقعی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی۔ کارکنوں نے مزاحمت کی لیکن پھر پیچھے ہٹتے گئے مغرب تک ڈی چوک کو مظاہرین سے خالی کرا لیا گیا اور پھر چائنہ چوک پر موجود ہجوم کے خلاف کریک ڈاؤن کیلئے اندھیرے کا سہارا لیا گیا۔
میں نے آنسو گیس کے دھوئیں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان گھوم پھر کر بہت سے سوالات کے جواب تلاش کئے اہم ترین سوال یہ تھا کہ تحریک انصاف کا قافلہ اسلام آباد کے اندر کیسے آ گیا؟ کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ دو دن کی مزاحمت سے رکاوٹیں ہٹا کر آئے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور ایف سی والوں کا کہنا تھا کہ ہم نے شہر کے داخلی راستوں پر زیادہ مزاحمت اس لئے نہیں کی کیونکہ ہجوم بہت بڑا تھا جس میں عورتیں بھی شامل تھیں اور ہم اپنے ہی پاکستانیوں کی لاشیں نہیں گرانا چاہتے تھے۔
ایک اہم بات یہ پتہ چلی کہ اسلام آباد کے تمام راستے 23نومبر کو بند کر دیئے گئے تھے سندھ، پنجاب اور آزاد کشمیر پولیس کے علاوہ رینجرز اور ایف سی کو بھی اسلام آباد بلایا گیا تھا۔ دوسرے صوبوں سے بلائے گئے پولیس کے ہزاروں جوانوں کو رات سونے کیلئے ٹینٹ لگا کر دیدیئے گئے لیکن ان کے کھانے پینے کا مناسب بندوبست نہیں تھا۔ دو تین دن تک انہوں نے اپنی جیب سے کھایا پیا، اسلام آباد مہنگا بھی ہے اکثر پولیس والوں کے پیسے بھی ختم ہو گئے۔ 26نومبر تک یہ تھک چکے تھے.
جب ان کے حالات کا علم صدر آصف علی زرداری کو ہوا تو انہوں نے سندھ کے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ اگر اسلام آباد پولیس آپ کے جوانوں کا خیال نہیں رکھ سکتی تو ان کے کھانے پینے کا بندوبست آپ کریں۔ میں مزید تفصیلات بیان نہیں کر سکتا کالم کا دامن تنگ ہے۔
26نومبر نے تمام ریاستی اداروں کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم تحریک انصاف کا احتجاج نہیں روک سکا۔ میڈیا پر ریاست کا کنٹرول تحریک انصاف کے بیانیے کو شکست نہیں دے سکا۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کی ساکھ بڑی طرح مجروح ہو چکی ہے۔ 8فروری کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی حکومت عوامی حمایت سے محروم ہے۔
تحریک انصاف بظاہر ایک پاپولر جماعت نظر آتی ہے لیکن اس جماعت کے کارکن عمران خان کے سوا کسی دوسرے رہنما پر اعتماد نہیں کرتے اور 26نومبر کے بعد اس جماعت کے وہ سب قائدین کارکنوں کی نظروں میں مشکوک ہیں جو گرفتار نہیں ہوئے؟
کیا خیبرپختونخوا میں گورنر راج اور تحریک انصاف پر پابندی کسی مسئلے کا حل ہے؟ مجھے خدشہ ہے کہ تحریک انصاف کے مایوس کارکنوں کی ایک بڑی تعداد واپس جا کر ریاست دشمن عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں کھلونا بن سکتی ہے۔ جب بھی سیاسی جماعتیں اور جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں تو شدت پسند اور مسلح گروہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ 26نومبر کا سبق یہ ہے کہ 8 فروری کو جو بندوبست کیا گیا وہ ناکام ہو چکا ہے۔
مجھ جیسے صحافی عمران خان کے دور حکومت میں بھی زیر عتاب تھے اور آج بھی غدار کہلاتے ہیں۔ میں اپنے پرانے موقف کو دہراؤں گا پاکستان کے آئین کی طرف واپس آ جائیں۔ آئین کی خلاف ورزی اندھیروں کو جنم دیتی ہے اور اندھیروں کی جیت پر فتح کے جشن منانا بیوقوفی ہے۔